ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / ہیرو شیما پر جوہری حملہ، 71برس مکمل:ناگاساکی:جب آناً فانا74ہزار انسان موت کی نیند سو گئے

ہیرو شیما پر جوہری حملہ، 71برس مکمل:ناگاساکی:جب آناً فانا74ہزار انسان موت کی نیند سو گئے

Tue, 09 Aug 2016 16:05:21  SO Admin   S.O. News Service

بیجنگ،9؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)جاپانی شہر ناگاساکی پر امریکی ایٹم بم 9اگست 1945ء کو قبل از دوپہر گیارہ بج کر دو منٹ پر گرایا گیا تھا۔ اس سال اس ہولناک واقعے کو، جس میں ہزارہا انسان موت کے منہ میں چلے گئے، اکہتّر برس پورے ہو رہے ہیں۔9 اگست 1945ء کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے کے بعد ابتدائی لمحات میں ہی اکٹھے 74ہزار انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے ۔امریکیوں نے ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے سے تین ہی روز قبل 6 اگست 1945ء کو جاپان ہی کے شہر ہیروشیما پر بھی ایٹم بم گرایا تھا، جس کے نتیجے میں فوری طور پر اور تابکاری کے اثرات کے نتیجے میں بعد کے برسوں میں مجموعی طور پر ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہء اجل بن گئے تھے۔71برس قبل ہیرو شیما میں امریکا کی طرف سے ایٹم بم گرائے جانے کے واقعے کی یاد میں آج بروز ہفتہ جاپان میں یادگاری تقریبات کا انعقاد ہوا ۔اس موقع پر دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی زور دار اپیل بھی کی گئی۔ 

ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے کے نتیجے میں ہونے والے ابتدائی دھماکے نے ہی آناً فاناً چوہتر ہزار انسانوں کو موت کی نیند سُلا دیا تھا جبکہ آنے والے برسوں میں مزید ہزارہا انسان تابکاری کے اثرات کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔منگل نو اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے واقعے کے اکہتّر سال پورے ہونے کے موقع پر ایک یادگاری تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں اس ہولناک واقعے میں زندہ بچ جانے والے عمر رسیدہ افراد کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کے لواحقین بھی شریک ہوئے اور عین گیارہ بج کر دو منٹ پر یعنی ایٹم بم گرائے جانے کے وقت گھنٹیاں بجا کر مرنے والوں کی یاد تازہ کی گئی۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ناگاساکی کی خاتون میئر تومی ہِیسا تاؤ نے امریکی صدر باراک اوباما کی تعریف کی، جنہوں نے پہلے امریکی صدر کے طور پر اس سال ہیروشیما کا تاریخی دورہ کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا: حقائق کا پتہ چلنا ایک نقطہء آغاز ہوتا ہے، جہاں سے انسان ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیا کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے وہ دراصل دیگر عالمی رہنماؤں سے یہ کہہ رہی تھیں کہ وہ آ کر اُن کے شہر کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں تاکہ اُنہیں اکہتر سال پہلے پیش آنے والے واقعے کا صحیح معنوں میں ادراک ہو سکے۔اس موقع پر مقامی حکام کے ساتھ ساتھ اکہتر سال پہلے کے واقعے میں زندہ بچ جانے والوں نے بھی اس امر پر زور دیا کہ جاپان نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امن پسندی کا جو راستہ اپنایا تھا، اُس پر اُسے کاربند رہنا چاہیے۔ناگاساکی کی میئر نے بھی موجودہ جاپانی حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا کہ جہاں وہ ایک طرف جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی وکالت کر رہی ہے، وہاں بدستور ایسے ہتھیاروں کو حریف کو خائف رکھنے کے حربے کے طور پر برقرار رکھنے پر بھی انحصار کر رہی ہے۔جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے ناگاساکی میں عالمی رہنماؤں پر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی پاسداری کے لیے زور دیا اور کہا کہ پوری عالمی برادری کو ایسی کوششیں کرنی چاہئیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ پھر کبھی بھی نہ دہرائی جا سکے۔

لیبیا: سمندر نے مہاجرین کی باقیات اگل دیں
طرابلس،9؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)لیبیا میں المایا کے ساحل کے قریبی رہائشیوں نے سمندر کی جانب سے اگل دی جانے والی 21 مہاجرین کی جسمانی باقیات کو دفن کر دیا ہے۔ حکام توجہ دلانے پر بھی ان لاشوں کو دفنانے کا کوئی انتظام نہ کر پائے تھے۔غیر سرکاری تنظیموں اور طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ المایا کے رہائشیوں نے ساحل پر آ جانے والی ان 21انسانی لاشوں کی باقیات کی تدفین حکام کی جانب سے کوئی اقدام نہ کرنے پر اپنی مدد آپ کے تحت ہی کر دی۔دارالحکومت طرابلس کے مغرب میں واقع المایا کے ساحل پر پہلی بار انسانی باقیات دو اگست کو دکھائی دی تھیں۔ ورشفانا ضلع میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سول سوسائٹی ایسوسی ایشن کے مطابق دو اگست کے بعد اگلے چند روز تک مسلسل ایسی ہی انسانی باقیات ساحل پر آتی چلی گئیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ انسانی نعشیں انتہائی خراب حالت میں تھیں اور ان کی پہچان ممکن نہیں رہی تھی۔اس تنظیم کے مطابق مقامی رہائشیوں میں خوف اور دہشت پھیل گئی تھی کہ کہیں علاقے میں کوئی متعدی بیماری نہ پھیل جائے۔ اس پر مقامی حکام کو بار بار متنبہ کیا گیا، تاہم ان کی جانب سے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا، جس کے بعد علاقے کے رہائشیوں نے خود ہی ان انسانی باقیات کی تدفین کا کام شروع کر دیا۔

لیبیا کی ریڈ کریسنٹ تنظیم کے مطابق مقامی حکام کو مطلع کیا گیا اور اپنے اسٹاف ہی کے ذریعے ان انسانی باقیات کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تنظیم کے مقامی سربراہ حسام نصر کے مطابق، ہم نے مقامی حکام سے رابطے کی کوشش کی تاکہ ان لاشوں کو دفنانے کی باقاعدہ اجازت لی جا سکے، کیوں کہ یہ لاشیں تین دن سے ساحل پر موجود تھیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکام کی جانب سے عدم توجہ کے باعث مقامی رہائشیوں نے بالآخر یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسلامی طریقے سے ان لاشوں کی تدفین کی۔یہ بات اہم ہے کہ سن 2011ء میں مسلح تحریک کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے لیبیا پر حکومت کرنے والے معمر قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا، جب کہ انہیں بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ مگر تب سے لیبیا داخلی طور پر خانہ جنگی اور انتشار کا شکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتظامی کمزویوں کی وجہ سے انسانوں کے اسمگلر لیبیا ہی کے ساحلوں کو غیرقانونی تارکین وطن کو بحیرہء روم عبور کروا کر یورپ پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

جرمن حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے نئے مہاجرین کی تعداد میں جولائی میں کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔ جولائی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والوں کی تعداد قریب 16 ہزار رہی۔جرمنی کی وزارت داخلہ کی جانب سے پیر کے روز بتایا گیا ہے کہ جولائی کے مہینے میں جرمنی میں سیاسی پناہ کی 16 ہزار ایک سو 60نئی درخواستیں موصول ہوئیں اور یہ تعداد گزشتہ تین ماہ سے بدستور قریب ایک سی ہے۔ یہ تعداد گزشتہ برس موسم خزاں میں مہاجرین کے بحران کی بلند ترین سطح سے نہایت کم ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کے لیے درخوست دینے والوں میں زیادہ تر شامی شہری شامل ہیں۔سن 2015ء میں جرمنی میں قریب گیارہ لاکھ افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں، جب کہ صرف ماہ نومبر میں یہ تعداد دو لاکھ چھ ہزار تھی۔ مہاجرین کی سب سے زیادہ بڑی تعداد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان اور پھر خطّہء بلقان کی ریاستوں کا راستہ استعمال کرتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپ پہنچی۔ ان مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد جرمنی پہنچی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس جنوری میں قریب 92ہزار مہاجرین نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں، جب کہ رواں برس مجموعی طور پر دو لاکھ 38ہزار چار سو 24نئی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ تاہم جرمن حکام اس سلسلے میں یہ بتانے سے گریز کر رہے ہیں کہ رواں برس مجموعی طور پر کتنے مہاجرین جرمنی پہنچ سکتے ہیں۔

جرمن حکام کا کہنا ہے کہ شام کے بعد جن ممالک کی باشندوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں جمع کرائیں، وہ افغانستان، عراق، اریٹریا اور روس تھے۔رواں برس مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپی یونین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جب کہ بلقان ریاستوں کی جانب سے اپنی سرحدیں بند کر دینے کی وجہ سے بھی تارکین وطن کا مغربی یورپ کی جانب بہاؤ کسی حد تک رکا ہے۔ تاہم ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش، وہاں جاری حکومتی کریک ڈاؤن اور یورپ کے ساتھ انقرہ حکومت کے بگڑتے تعلقات کے تناظر میں یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ راستہ ایک مرتبہ پھر کھل سکتا ہے۔


Share: